ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گاؤں میں پپو نام کا ایک چالاک چور رہتا تھا۔ پپو چور اپنی چالاکی اور ہوشیاری کی وجہ سے پورے گاؤں میں بدنام تھا۔ وہ ہمیشہ نئے نئے طریقوں سے چوری کرتا اور ہر بار بچ نکلتا۔ لیکن کہتے ہیں نا، برے کام کا برا انجام—آخر ایک دن چالاک چور کی چالاکی بھاری پڑ گئی۔
چوری کی نئی ترکیب
ایک دن پپو چور نے سنا کہ گاؤں کے سب سے امیر آدمی چاچا کریم بخش کے گھر میں ایک قیمتی خزانہ چھپا ہوا ہے۔ اس کے منہ میں پانی آ گیا اور اس نے فوراً ایک زبردست چوری کا منصوبہ بنا لیا۔ رات کے وقت جب سب لوگ سو گئے، تو پپو چور نے بلی کی چال چلی اور دبے پاؤں چاچا کریم بخش کے گھر جا پہنچا۔
عجیب و غریب حالات
پپو چور نے کھڑکی سے اندر جھانکا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک بہت بڑا بکس پڑا ہوا ہے۔ وہ خوشی سے پھولا نہ سمایا اور دھیرے دھیرے اس بکس کو کھولنے لگا۔ جیسے ہی اس نے ڈھکن اٹھایا، اچانک بکس کے اندر سے ایک زور دار دھماکہ ہوا اور پورے کمرے میں آٹے کا بادل چھا گیا!
اصل میں چاچا کریم بخش کو پہلے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ کوئی چور آ سکتا ہے، اس لیے انہوں نے خزانے کے بکس کی جگہ آٹے سے بھرا ایک بکس رکھ دیا تھا۔
چور کی قسمت پھوٹ گئی
پپو چور بری طرح آٹے میں لت پت ہو گیا۔ وہ اندھا دھند باہر کی طرف بھاگا، لیکن اسی وقت گلی کے کتوں نے اسے آٹا لگا دیکھ کر پکوڑا سمجھ لیا اور پیچھے دوڑ پڑے۔ پورا گاؤں جاگ گیا، سب نے دیکھا کہ پپو چور سفید بھوت بنا ہوا، چیختا چلاتا بھاگ رہا ہے۔ آخرکار گاؤں کے لوگ اسے پکڑ کر چوپال میں لے آئے سب نے اس کی اچھی خاصی “مہمان نوازی” کی۔
نتیجہ: برے کام کا برا انجام
آخر میں پپو چور کو احساس ہوا چوری کا کوئی فائدہ نہیں، بس ذلت اور مار ہی نصیب ہوتی ہے۔ وہ روتے ہوئے کہنے لگا:
“مجھے معاف کر دو! میں آئندہ کبھی چوری نہیں کروں گا!”
چاچا کریم بخش نے مسکرا کر کہا:
“بیٹا، یاد رکھو—برے کام کا برا انجام ہوتا ہے۔ چوری سے زیادہ محنت میں برکت ہے!”
اس کے بعد پپو چور نے چوری چھوڑ کر سموسے بیچنے کا کام شروع کر دیا اور پورے گاؤں میں “چور سے توبہ والے سموسے” مشہور ہو گئے۔ 😆