چالاک لومڑی اور بھولا اونٹ
چالاک لومڑی اور بھولا اونٹ

چالاک لومڑی اور بھولا اونٹ

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک وسیع صحرا میں چالاک لومڑی اور بھولا اونٹ رہتے تھے بھولا اونٹ کا نام جمیل تھا۔ وہ بہت نیک دل اور مددگار تھا۔ اس کا سب سے اچھا دوست زکی نامی ایک چالاک اور مکار لومڑی تھی۔ جمیل کی طرح سادہ نہ ہونے کے بجائے، زکی ہمیشہ دوسروں کو دھوکہ دینے کے طریقے ڈھونڈتی رہتی تھی۔ چالاک لومڑی اور بھولا اونٹ

ایک دن دوپہر کے وقت، جب چالاک لومڑی اور بھولا اونٹ ایک کھجور کے درخت کے نیچے آرام کر رہے تھے، زکی نے اپنے ہونٹ چاٹتے ہوئے کہا، “جمیل، میرے دوست! میں ایک ایسی جگہ جانتا ہوں جہاں دریا کے پار تازہ اور مزیدار خربوزے ہیں! لیکن میں اکیلا نہیں جا سکتا کیونکہ میں تیر نہیں سکتا۔ کیا تم میری مدد کرو گے؟”

جمیل جو ہمیشہ مدد کے لیے تیار رہتا تھا، فوراً بولا، “بالکل، زکی! میری پیٹھ پر سوار ہو جاؤ، میں تمہیں دریا پار لے چلتا ہوں۔”

یہ سن کر زکی خوشی سے جمیل کی پیٹھ پر چڑھ گئی اور وہ دریا میں اتر گئے۔ جمیل اپنی لمبی ٹانگوں اور طاقتور جسم کے ساتھ آسانی سے دریا پار کر گیا اور جلد ہی وہ سرسبز کھیتوں میں پہنچ گئے، جہاں خربوزے ہر طرف بکھرے ہوئے تھے۔

جمیل بہت خوش ہوا۔ “آؤ، زکی، مل کر کھاتے ہیں!” اس نے کہا۔

لیکن زکی ایک خودغرض دوست تھی۔ اس نے خود ہی خربوزے کھانے شروع کر دیے اور جمیل کو بھول گئی۔ وہ اتنی تیزی سے کھانے لگی کہ اس کا پیٹ غبارے کی طرح پھول گیا۔

کھانے کے بعد زکی کے دماغ میں ایک شرارتی خیال آیا۔ وہ جانتی تھی کہ کھیت کا مالک قریبی کٹیا میں رہتا ہے، اور وہ جمیل کو مشکل میں ڈالنا چاہتی تھی۔ چنانچہ وہ اچانک ایک پتھر پر چڑھی اور زور زور سے چلانے لگی، “آؤوووو! آؤوووو!”

جمیل حیرت سے بولا، “زکی! یہ تم کیا کر رہی ہو؟ کسان جاگ جائے گا!”

زکی نے شرارت سے ہنستے ہوئے کہا، “بالکل! میں تو پیٹ بھر کر کھا چکی ہوں، لیکن تم ابھی تک آہستہ آہستہ چبا رہے ہو! اب جب کسان آئے گا، تو میں بھاگ جاؤں گی، لیکن تم، میرے دوست، تم تو بہت بڑے اور سست ہو!”

زکی کی بات پوری ہونے کی دیر تھی کہ کسان غصے میں چیختا ہوا باہر نکلا، “چور! چور میرے کھیت میں!” اور ایک موٹا ڈنڈا لے کر جمیل کی طرف دوڑا۔

جمیل گھبرا کر بھاگا لیکن اس کا بڑا جسم تیزی سے حرکت کرنے میں رکاوٹ بن گیا۔ کسان اسے مارتا ہوا دریا تک لے آیا۔ جمیل نے ایک زوردار چھلانگ لگائی اور دریا میں کود گیا، جیسے تیسے وہ اپنی جان بچا کر دوسرے کنارے پر پہنچا۔

جب وہ باہر آیا تو زکی پہلے ہی وہاں موجود تھی، زور زور سے ہنس رہی تھی۔ “اوہ، جمیل! تمہیں بھاگتے دیکھنا کتنا مزاحیہ تھا!” اس نے کہا۔

جمیل نے اپنی سانس بحال کی اور سوچا کہ زکی نے اسے دھوکہ دیا ہے۔ لیکن وہ اتنا بھی بھولا نہ تھا۔

جمیل نے مسکراتے ہوئے کہا، “میرے پیارے دوست زکی، مجھے کھانے کے بعد نہانے کی عادت ہے۔ اور چونکہ تم میری پیٹھ پر ہو، تو تمہیں بھی نہانا پڑے گا!”

یہ سنتے ہی جمیل نے اچانک دریا میں ایک زبردست غوطہ لگایا۔ پانی ہر طرف چھینٹے مارنے لگا، اور زکی، جو تیرنا نہیں جانتی تھی، ہاتھ پاؤں مارنے لگی۔ “جمیل! مجھے بچاؤ!” اس نے چلایا۔

جمیل نے سر اوپر اٹھایا اور کہا، “اوہ، زکی! میں تو صرف مزاق کر رہا ہوں، جیسے تم نے میرے ساتھ کیا!”

زکی نے منت کی، “مجھے معاف کر دو، جمیل! میں آئندہ ایسا نہیں کروں گی!”

جمیل نے مسکرا کر زکی کو کنارے تک پہنچایا، لیکن اس دن کے بعد اس نے کبھی اس پر بھروسہ نہیں کیا۔ جمیل نے سیکھ لیا کہ بُرا دوست ہمیشہ مصیبت کا باعث بنتا ہے۔

کہانی سے سبق: بُرے اور خودغرض دوستوں سے بچو۔ سچی دوستی بھروسے اور محبت پر مبنی ہوتی ہے، دھوکہ اور فریب پر نہیں۔

1 Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *